🐺 بھیڑئیے کا بچہ

 عرب کے چوروں کا ایک گروہ ایک پہاڑ کی چوٹی پر (قبضہ


جما)بیٹھا تھا۔اور قافلہ کا راستہ بند کردیا تھا۔ اور شہروں کی رعایا اس کے مکر وفریب سے ڈرتی تھی۔ اور بادشاہ کا لشکر عاجز تھا۔ چونکہ اسنے ایک پہاڑ کی چوٹی پر محفوظ جاے پناہ بنالی تھی۔اور اسکو اپنا ٹھکانا اور پناہ گاہ بنالیا تھا۔ ان اطراف کے شہروں کے عقلمندوں نے اس کی نقصان رسانی کے رفع کرنے کا مشورہ کیاکہ اگر یہ گروہ اسی طور پر چند دن جما رہے گا ۔تو پھر مقابلہ نا ممکن ہوجاےگا۔۔                          

                                  مثنوی۔                              

جس درخت نے ابھی جڑ پکڑی ہے۔           

ایک آدمی کی طاقت سے اکھڑ جائے گا۔         

اور اگرتو اسی طرح اسکو ایک زمانے تک چھوڑ دیگا۔   

تو گردوں کے ذریعہ بھی اسکوجڑسے اکھاڑ نہیں سکتا

چشمہ کا سوراخ ایک سلائی سے بند کیا جا سکتا ہے۔  

جب وہ بھرا تو ہاتھی کے ذریعہ بھی اسکو عبور نہیں  

کیا جا سکتا۔                         


یہ فیصلہ ہواکہ ایک شخص کو ان کی سراغ رسانی پر مقرر کردیا اور موقع کے متلاشی رہےجس وقت وہ ایک قوم پر چڑھائی کرنے گیا ہوا تھا اور قیام گاہ خالی تھی چند آدمی جو تجربہ کار اور جنگ آزمودہ کو روانہ کردیا چنانچہ وہ پہاڑ کی گھاٹیوں چھپ گئے ۔رات کے وقت جب چور واپس آئےسفر کئے ہوئے اور لوٹ کا مال لئے ہوئے۔تو اُنہوں نے بدن سے ہتھیار کھول دئیے اور لوٹ کا مال ایک طرف رکھ دیا سب سے پہلا دشمن جو ان پر حملہ آور ہوانیند تھی یہاں تک کہ شب کا ایک حصہ گزر         گیا                                                                

                                شعر۔                                

سورج کی ٹکیہ سیاہی میں چلی گئی(جیسا کہ)۔  

حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں چلے۔   گئے


بہادر لوگ اپنے چھپاؤ کی جگہ سے باہر نکل آئے اور ایک ایک کے ہاتھ مونڈھوں باندھ دئے صبح کو بادشاہ کے دربار میں حاضر کردیا ۔سب کو مار ڈالنے کا حکم فرمایا ۔ اتفاقا ان میں ایک نوجوان بھی تھا ۔کہ اسکی آغاز جوانی میوہ تازہ تھا اور اسکے رخسار کے باغ کا سبزہ نیا نیا اگا تھا ۔ ایک وزیر نے بادشاہ کے تخت کے پائے کو چوما اور سفارش کا چہرا زمین پر رکھا اور کہا اس لڑکے نے ابھی زندگی کے باغ کا پھل بھی نہیں چکھا ہے اور جوانی کی ابتداء سے نفع نہیں اٹھایا ہے شاہی اخلاق و کرم سے توقع یہ ہے کہ اسکا خون معاف فرما کر اس خادم پر احسان فرمائیں گے ۔بادشاہ کو اس بات پر غصہ آیا اور یہ بات اسکی بلند رائے کے موافق نہ پڑی اور کہا 

فرد

جسکی بنیاد بری ہے وہ بھلوں کا سایہ بھی اپنے پر نہیں پڑنے دیتا

نا اہل کی تربیت کرنا ایسا ہے جیسا کی گنبد پر اخروٹ

ان کی نسل و جڑ کو کاٹ ڈالنا ہی زیادہ بہتر ہے۔ کیونکہ آگ کو بجھا نا اور چنگاری چھوڑ دینا اور سانپ کو مارنا اور اسکے بچے کو حفاظت سے رکھنا عقلمندوں کا کام نہیں۔ ہے۔

قطعہ 

اگر بادل آب حیات برسائے 

تو بھی تو بید کی شاخ کا پھل نہیں کھائے گا 

کمینے کے ساتھ وقت ضائع نہ کر

کیونکہ بورئے کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو شکر نہیں کھائے گا !

وزیر نے یہ بات سنی۔ اور چار و ناچار پسند کی ۔ اور بادشاہ کی رائے کی خوبی کی تعریف کی اور کیا جو کچھ بادشاہ دام ملکہ نے فرمایا بالکل صحیح ہے۔اور بات نا قابل انکار اس لئے کہ اگر ان بروں کی صحبت میں پلتا تو انکی فطرت اختیار کرتا اور ان میں ہی کا ایک ہوتا۔ لیکن غلام کو امید ہے کہ نیکوں کی صحبت کا اثر قبول کرلے گا اور عقلمندوں کی عادت اختیار کر لے گا اس لئے کہ ابھی بچہ ہے اور اس قوم کی سرکشی اور دشمنی کی عادت نے اس کی طبیعت میں جڑ نہیں پکڑی اور حدیث شریف میں آیا ہے .ترجہ ہر بچہ اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر اسکے ماں باپ اسکو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا ڈالتے ہیں ۔۔ ۔۔۔قطعہ

حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے نے بروں کے ساتھ نشست و برخاست اختیار کی ۔اس سے نبوت کا خاندان چھوٹ گیا 

اصحاب کہف کے کتے نے چندروز نیکوں کی صحبت اختیار کی آدمی بن گیا 


اس نے یہ کہا ۔۔اور بادشاہ کے مصاحبوں میں سے ایک جماعت نے سفارش کرنے میں اس کا ساتھ دیا ۔چنانچہ بادشاہ نے اس کے قتل کا ارادہ چھوڑ دیا اور فرمایا میں نے معاف کیا اگرچہ مناسب نہ سمجھا 

رںاعی۔۔۔

تجھے معلوم ہے کہ زال نے رستم پہلوان سے کیا کہا تھا ۔

دشمن کو بے چارہ اور کمزور نہ سمجھنا چاہیے ۔

ہم نے بہت سی مرتبہ دیکھا ہے کہ چھوٹے چشمہ کا پانی ۔

جب زیادہ ہوگیا تو اونٹ 🐫 اور بوجھ کو بہا لے گیا!


خلاصہ یہ کہ لڑکے کو ناز و نعمت سے پرورش کیا اور ادب سکھا نے والا استاد اسکو پڑھانے سکھانے کےلئے مقرر کردیا چنانچہ انہوں نے بات چیت کا سلیقہ جواب دینے کا طریقہ ۔اور بادشاہوں کی خدمت کے طریقے اسکو سکھادئے اور سب سکو پسند کرنے لگے۔ ایک مرتبہ وزیر اس کے اخلاق تھوڑا سا ذکر بادشاہ کے دربار میں کر رہا تھا کہ عقلمندوں کے سکھانے پڑھانے نے اس میں اثر کیا ہے اور پرانی نادانی اسکی طبیعت سے دور کردی ہے ۔بادشاہ اس بات پر مسکرایا اور کہنے لگا ۔۔۔                   

       بیت۔۔۔   

انجام کاربھیڑئیے کا بچہ بھیڑیا ہوتا ہے۔۔

اگرچہ انسان کے ساتھ پل کر بڑا ہوا ہو۔۔۔

دو سال اس بات کو گذر گئے ۔محلے کے بدمعاش کا ایک گروہ اس سے میل کھا گیا اور انہوں نے اس سے دوستی کا عہد باندھ لیا ۔۔آخر موقع پا کر اس نے وزیر کو اور اس کے دونوں لڑکوں کو مار ڈالا اور لا تعداد دولت لے کر چلا گیا۔ اور باپ کی جگہ چوروں کی گھاٹی میں رہنے لگا ۔اور باغی ہوگیا بادشاہ نے افسوس سے انگلی دانتوں میں دبائ  اور فرمایا۔

قطعہ 

برے لوہے سے عمدہ تلوار کوئ کیسے بنائے

اےعقلمند سکھانے پڑھانے سے نا لائق لائق نہیں ہو سکتا ۔

بارش جس کی طبیعت کے پاکیزہ ہونے میں کوئ اختلاف نہیں ۔

باغ میں لالہ اور شوریلی (بنجر)زمین میں جھاڑ اگاتی ہے 

قطعہ

شوریلی زمین سنبل نہی اگا سکتی 

اس میں کوشش کا بیج ضائع نہ کر 

بروں کے ساتھ نیکی کرنا ایسا ہی ہے جےسے نیکوں کے ساتھ بدی کرنا  

(ماخوذ ۔ گلستان سعدی ۔ ب1 ح4)

Comments

Popular posts from this blog

حضرت سیدنا امام غزالی۔ رحمۃاللہ علیہ الوالی دینی خدمات و اثرات

حسد کی آگ