حسد کی آگ

 میں نے ایک سپاہی زادہ کو اغلمش کے دروازے پر دیکھا جو


کہ عقل ۔سمجھ۔دانائی اور ذہانت ناقابل بیان رکھتا تھا۔بچپن ہی سے بڑائی کے نشانات اسکی پیشانی سے ظاہر تھے۔۔۔

فرد۔                        ۔۔۔

اس کے سر پر ہوشمندی کی وجہ سے

بڑائی کا ستارہ چمک رہا تھا



خلاصہ یہ کہ بادشاہ کی نظر پر چڑھ گیا چونکہ ظاہری وباطنی حسن رکھتا تھا ۔اور عقلمندوں نے کہا ہے ۔مالداری دل سی ہے نہ کہ مال سے۔ اور بڑائ عقل سے ہےنہ کہ عمر سے۔اس کے ہم پیشہ اس کے مرتبہ پر جلنے لگے۔ اور ایک خیانت کی اس پر تہمت لگائی اور اسکے مار ڈالے جانے پربے نتیجہ کو شش کی

جب دوست مہربان ہوتو۔ دشمن کیا کر سکتا ہے۔بادشاہ نے دریافت کیا تجھ سے انکی دشمنی کا سبب کیا ہے۔ اس نے کہا بادشاہی حکومت کے زیر سایہ خدا اسے بر قرار رکھے میں نے سب کو راضی کرلیا ہے بجز حاسدوں کے کیونکہ وہ تو جب ہی راضی ہوں گے جب مجھ سے نعمتیں چھن جائیں۔ خدا کرے شاہی حکومت اور دبدبہ ہمیشہ باقی رہے

قطعہ

میں یہ کر سکتا ہو۔ کہ کسی کا دل نہ دکھاؤ ں 

میں حاسد کا کیا کروں وہ تو خود بخود رنج میں ہے

اے حاسد تو مرجا تا کہ تو رہائی پالے اس لئے کہ یہ رنج تو ایسا ہے 

کہ اسکی تکلیف سے موت کے سوا چھٹکارا نہیں ہو سکتا 

قطعہ 

بد بخت تمنا سے نصیبہ دروں کے 

مرتبہ اور نعمت کا زوال چاہتے ہیں 

اگرتوندے کی بیماری والا دن میں نہ دیکھے

تو اس میں آفتاب کی ٹکیہ کا کیا قصور ہے 

اگر تو سچ کہلوانا چاہے تو ایسی ہزار آنکھوں کا 

اندھا ہو جانا آفتاب کے سیاہ ہونے سے بہتر ہے 

(گلستاں سعدی حکایت 5) 

Comments

Popular posts from this blog

حضرت سیدنا امام غزالی۔ رحمۃاللہ علیہ الوالی دینی خدمات و اثرات

🐺 بھیڑئیے کا بچہ