حکمت سے کلام کرنا
میں نے ایک بادشاہ کے بارے میں سنا کہ اس نے ایک قیدی کو
قتل کرنے کا حکم دیا۔ بیچارے نےاس نا امیدی کی حالت میں اپنی زبان میں بادشاہ کو گالیاں دینا اور سخت وسست کہنا شروع کردیا اس لئے کہ لوگوں نے کہا ہے۔جو کوئ جان سے ہاتھ دھو لیتا ہےجو کچھ دل میں آتا ہے کہتا ہے۔
بیت
ضرورت کے موقع پر جب بھاگنا ممکن نہ رہے
تو ہاتھ تیز تلوار کی نوک پکڑ لیتا ہے
شعر
انسان جب نا امید ہو جاتا ہےتو اسکی زبان دراز ہو جاتی ہے
جیسے دبی ہوئی بلی کتے پر حملہ کردیتی ہے
بادشاہ نے دریافت کیا کہ کیا کہتا ہے؟
ایک نیک خصلت وزیر بولا۔ اے بادشاہ وہ یہ کہ رہا ہے وہ لوگ بہت اچھے ہیں جو غصہ پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں۔ بادشاہ کو رحم آگیا۔ اور اس کو قتل کرنے کا خیال ترک کردیا۔دوسرا وزیر جو اس وزیر کا مخالف تھا بولا ہمارے ہم پیشہ لوگوں کیلئے مناسب نہیں ہے۔ بادشاہوں کے دربار میں سچی بات کے سوا کچھ کہنا۔۔ اس نے تو بادشاہ ہ کو گالیاں دی ہے اور نا مناسب باتیں کہی ہے۔ بادشاہ اس بات کو سن کر ناراض ہوا اور بولا وہ جھوٹ جو اس وزیر نے بولا مجھے اس سچ سے بہت پسند آیا۔جو تو نے کہا۔ اسلئے کہ اسکا رخ نیکی کی طرف تھا۔اور اس سچ کی بنیاد خباثت پر۔ اور عقلمندوں نے کہا ہے۔مصلحت آمیز جھوٹ فتنہ برپا کردینے والے سچ سے بہتر ہے۔
شعر
جو شخص ایسا ہو کہ بادشاہ وہی کرتا ہو جو وہ کہدے
تو بڑے افسوس کی بات ہے کہ وہ شخص نیکی کے سوا بات
کہے۔
,
لطیفہ
۔۔فریدوں کے محل کی محراب پور لگا ہوا تھا
مثنوی
اے بھائ دنیا کسی کے پاس نہیں ٹکتی
تو دنیا کے پیدا کرنے والے سے دل لگااور بس
دنیا کی حکومت پر سہارا اور بھروسہ نہ کر
کیونکہ دنیا نے تجھ جیسے بہت سے پالے اور مارڈالے
جب پاک جان دنیا سے روانگی کا ارادہ کرے
تو زمین اور تخت پر مرنا برابر ہے
از گلستاں باب اول حکایت (1)
Comments
Post a Comment