ظلم کا انجام
عجم کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ کا قصہ بیان کرتے ہیں۔ کہ اس نے رعایا کے مال پردست درازی کر رکھی تھی۔اور ظلم وستم شروع کردیا تھا یہاں تک کہ رعایا اس کے ظلم کی مکاریوں سے دوسری جگہ چلی گئی اور اسکے ظلم کی مصیبت سے مسافرت کا راستہ اختیار کرلیا جب رعایا کم ہوگئی۔ تو حکومت کی آمدنی میں گھاٹا آیا اور خزانہ خالی ہوگیا۔ دشمنوں کو (اس ملک کے فتح کر نے کا)لالچ پیدا ہوگیا۔ اور وہ زور پکڑ گئے۔۔۔۔
جو شخص مصیبت کے وقت اپنا مدد گار چاہے۔۔
اسکو کہہ دو کہ سلامتی کے وقت شرافت سے کام لے۔۔
اگر تو تابعدار غلام پر بھی مہربانی نہیں کرےگا تو وہ بھی بھاگ جائیگا ۔۔
مہربانی کر مہربانی تو غیر بھی فرمابردار ہو جائیگا۔۔۔
ایک مرتبہ اسکی مجلس میں کتاب شاہنامہ پڑھ رہے تھے۔ ضحاک بادشاہ کی بربادی اور فریدوں کی حکومت کا بیان تھا۔ وزیر نے بادشاہ سے پوچھا کیا جناب کچھ سمجھے۔ کہ فریدوں جسکے پاس نہ خزانہ تھا نہ لشکر۔۔
کس طرح اسکو حکومت مل گئی۔ اس نے کہا اسیطرح جیسا کہ تم نے سنا کہ رعایا اسکی طرفداری میں جمع ہوگئی۔ اور اسے مضبوط کردیا اس نے بادشاہی حاصل کرلی۔ وزیر نے کہا اے بادشاہ جب رعایا کا اکھٹا ہوجانا بادشاہی ملنے کے سبب ہے۔ تو تو رعایا کیوں بھگا رہا ہے۔ شاید تیرا بادشاہی کرنے کا خیال نہیں۔۔۔۔۔۔۔
فرد۔۔۔۔۔
یہی بہتر کہ تو لشکر کو جان لگا کر پالے۔
کیونکہ بادشاہ لشکر ہی کے ذریعہ بادشاہی کرتا ہے ۔
بادشاہ نے کہا لشکر اور رعایا کے اکھٹا کرنے کا کیا طریقہ ہے۔ وزیر نے کہا بادشاہ کو بخشش کرنی چاہیے ۔ تاکہ لوگ اسکے پاس جمع ہوجائیں۔ اور رحم کرنا چاہیے تاکہ لوگ اسکی حکومت کے زیر سایہ بے خوف ہوکر رہیں اور تجھ میں یہ دونوں باتیں نہیں ہیں۔۔۔۔
۔۔۔۔مثنوی۔۔۔
ظالم بادشاہی کیا نہیں کرتا ہے۔۔
کیونکہ بھیڑئیے سے چرواہے کا کام نہیں ہو سکتا۔۔
جس بادشاہ نے ظلم کی بنیاد ڈالی۔
اسنے اپنے ہی حکومت کی دیوار کی جڑ کھودی ہے۔
ناصح وزیر کی نصیحت بادشاہ کی مخالف طبیعت کے موافق نہ پڑی اور اسکی بات سے منہ چڑھا لیا۔ اور اسکو جیل خزانہ بھیج دیا۔کچھ ہی زمانہ گزرا تھا۔ کہ بادشاہ کے چچیرے بھائی جھگڑے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ۔اور مقابلہ کے لیے لشکر تیار کیا ۔ اور باپ کا ملک مانگا۔ جو قوم کے اسکی دست درازی سے عاجز آچکی تھی۔ اور ماری ماری پھر رہی تھی۔ ان کے پاس اکھٹا ہوگئی۔ اور مدد کی۔ چنانچہ حکومت اسکے قبضہ سے نکل گئی اور ان کے ہاتھ آگئی۔
۔۔۔۔۔مثنوی۔۔۔۔
جو باشاہ کمزور پر ظلم کرنا جائز رکھے۔
اسکا دوست بھی مصیبت کے وقت اسکا زبردست دشمن بن جاتا ہے ۔۔
رعایا کے ساتھ صلح کر اور دشمن کی لڑائی سے بیخوف ہو کر بیٹھا رہ۔۔
اس لئے کہ منصف بادشاہ کی تو رعایا ہی لشکر ہے۔۔
۔۔۔۔فرد۔۔۔
خبردار کمزوروں کے ساتھ غمخواری کر
زمانہ کی زبردستی سے ڈر۔۔
گلستاں سعدی ۔۔
حکایت 6 باب 1
Comments
Post a Comment